Saturday 7 May 2016

فطری مسلمان ؟

خدا نہیں ہے!!!
لیکن ایں خیال است و محال است،
اک آن میں پوری خلقت ملحد ہو جائے کہ ہواؤں خلاؤں میں کچھ نہیں
تو اس نفسیاتی کامیابی کے بعد تلک جس اگلے مرحلے میں ملحد تھیالوجین داخل ہونگے وہ پھر وہی ہوگا _
خدا کی تلاش !
یہ تیرگی یہ تجسس جس نے اسے انکار پہ لاپٹخا تھا اس کی تکمیل کے بعد وہی اسے پھر اسی تکرار پہ لاپٹخے گا __
جو استدلال تشکیک سے شروع ہوا تھا تشکیک پہ ہی ختم!!
ابھی کھیل ختم نہیں ہوا میاں جان یہ انسانی جبلت میں مدخل ہے اس انکار نہیں___
بھوک لگنے قبل من چاہے طعام ہی کی تلاش رہتی ہے مل جائےسیر ہونے کے بعد اس طعام سے نفرت ہوجاتی، اس کی اہمیت اتنی سی ہو رہتی کہ اگر آپ اس صاحب سے اسرار کریں کہ اک لقمہ مزید تو وہ اٹھا کے دیوار میں مار دے گا جسے وہ قبل از پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا پھر رہا تھا _____
انکار ِ رب ِ ارنی و لن ترانی ___ کرنے والے کی حالت اسی انڈے سے نکلے چوزے کے جیسی ہوتی ہے کہ اگر اسکی اکیس دن سینچنے والی ماں کو اس کے انڈے سے باہر آنے سے قبل اوجھل کردیا جاوے تو وہ تیرگی وہ اقرار وہ احساس جو اسے سینچنے کے دوران ودعیت کیا گیا جو کہ اسکے نطفہ میں ازل سے شامل تھا کہ کوئی ہے جو اسکا اور صرف اسکا ہے وہ اسی تیرگی تجسس میں دیوانہ وار بھاگنے لگتا ہے ___
ہر سامنے آنے والی متحرک شئے کو اپنی ماں سمجھ بیٹھتا ہے کہ میرا اسی سے ربط ہے ___
کھڈے سے ان نو مولود بچوں کو اچانک سے رہائی دیجے اور الٹے قدم دوڑیے وہ نو مولود غول آؤ دیکھے گا نہ تاؤ آپکے پیچھے دوڑنے لگے گا۔۔
ماں سمجھ کر خالق سمجھ کر کہ محبت جڑن لگن فریفتگی دیونگی احساس ادراک کے ملگجی ہلاوٹ اسے ماں کی تلاش میں اسقدر گھایل کرکے چھوڑ دیتی ہے جوں جوبن پہ آیا دریا سندھ کا پشتہ اچانک سے ٹوٹے اور وہ دھڑا دھڑا کھائی میں بہنا شروع کردے۔۔
دوسرے دریا کی تلاش میں جو اسکے وجود کو مکمل کردے برابر کردے خود میں سمیٹ لے اسکو خود میں بھر دے تھام لے جکڑ لے روک لے محفوظ کر لے اسے تھام لے اسکی سطح آب کو لیول کردے_____ !
دو ہزار پانچ میں میں لال سہنارا نیشنل پارک گیا میں نے وہاں نایاب ہرنوں کے غول دیکھے پھر میری نگاہ اک ہرن پہ جاکر ٹک گئی ___ وہ اپنی عادت اپنی جنبش کے دریں اثنا سب سے منفرد تھا __ وہ اس باونڈری میں دیوانا وار بھاگ رہا تھا کبھی دائرے میں کبھی سیدھ میں کبھی آڑا ہوکر کبھی ترچھہ ہو کر اسکے کان اوپر کو اکڑ گئے تھے سیاہ گول آنکھیں پھٹی پھٹی چاروں اور ہر شئے بلا کی شوخی حیرت تجسس سے دیکھتیں تھیں اسکی ہڑبڑاہٹ سے صاف معلوم پڑتا تھا وہ شدید عصابی تناؤ کا شکار ہے __ میں نے چچا سے استسفار کیا یہ اسے کیا ہوا یہ کیا نیا آیا ہے یا ڈر گیا ہے ___ ؟؟؟
انہوں نے مسکرا کے میری طرف دیکھا __ یہ ملحد ہوگیا ہے __ میں نے حیرت سے تکا ___ کہنے لگے اسکی ناف دیکھی ہے __ ؟؟؟ معمول بڑھ چکی ہے جب کالے ہرن کی ناف پک کر پھوٹتی ہے تو وہ دیوانہ وار اس خوشبو کی تلاش میں دگرگوں گوناگوں دوڑتا چلا جاتا ہے کہ کہاں سے کس رخ سے کس اور سے یہ غضب کی سوندھی خوشبو آرہی ہے __ دائرے میں تیرنے لگتا ہے جس طرح مولائے روم کے دربار میں صوفیاء دائرے میں سفید جبے میں ملبوس گھومنے لگتے ہیں بے عین ویسے ہی وہ ہرن ہر چیز کو سونگھتا ہے ادھر بھاگ اُدھر بھاگ اپنے ٹانگوں پہ اردگرد گھومنے لگتا ہے ___
وہ احساس وہ خوشبو ہی کوئی ایسی غضب کی ہوتی ہے کہ ہوتی ہے کہ اسے پاگل کر دیتی ہے ہر چیز کو خوشبو دان سمجھ کر دوڑتا ہوا پاس جاتا ہے سونگھتا ہے سوال کا جواب نہیں ملتا جھٹک دیتا ہے کہ یہ وہ منبہ نہیں پھر پتھر لکڑی لوہا بوٹی درخت پتے مٹی الغرض ہر چیز میں اس خوشبو کے محور و مرکز کو ڈھونڈتا پھرتا ہے چین نہیں پڑتا اسکے سوال کی تشفیع نہیں ہوپاتی اسے جواب نہیں ملتا __ ہر چیز کو سونگھتا ہے سرا نہیں ملتا دھانہ نہیں خوشبو نہیں ملتی اسکی باتیں __
اسے جاکر کوئی بتلائے جسے وہ پہروں چیختا ہوا دندناتا ہوا دیدے و سنبھ ڈگمگاتا ڈھونڈتا پھر رہا ہے نا وہ اور کہیں نہیں اسکے اندر ہی سے پھوٹ رہی ہے __ یہ منبہ ِمعرفت جسکے ادراک جسکے مرکز کی اسے خو ہے وہ اسکے دل کے قریب کی ناف سے پھوٹ رہا ہے عرفہ نفس __!
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا گویا رب کو پہچان لیا کہ دہر میں ہر شئے سے ٹکرا ٹکرا کر سوالی نگاہوں سےعبث ہلکان ہوا جاتا __
آپ ہی اپنے زور میں کمزور ہواجاتا ہے __!
ہر چیز پہ نظر دوڑاتا ہے نہیں تو نہیں اپنے فقط اپنے نفس پر نہیں پیٹ لگی ناف پر نہیں کہ سارے سوالوں کے جواب اسکے جسم پہ ہی لگے ہوئے ٹھہرے ہیں __
اسکی ناف پہ اسکے نفس پہ لگے ہوئے __ اور گر وہ چوزہ پھوٹنے پر اپنے نفس پہ نظر دوڑاتا تو کسی انسان کے چلنے پر اسکے پیچھے نہ بھاگ پڑتا __
اور انسان ، اسی تیرگی میں ،حیرت کی بات ہے ، کہ انسان ہوکر جانور کی طرح سوچتا ہے___ ؟؟؟کہیے پھر آپ میں اور اک جانور میں کتنے گنا فرق موافق رہتا ہے __ ؟؟؟ انسان ہوکر جانور جیسا رد عمل __ ؟؟؟
ہرن کے پہلو میں ناف ہے تمہارے پہلو میں دل ہے دماغ ہے زبان ہے روح علم ہے ___ آپ مانیے ھم جانور کی سطح پر بیٹھ کر خدائی کا ادراک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں __!
کہ اندر سے پو پھوٹ رہی ہے ہمارے ، بت بنا لیے کہ یہ اس تیرگی کی یہی تشفیع ہے کہ بت بنا کر مطمئن کہ ہم نے کہا پو پھوٹ منبہ پتھر ہے ، انسانوں بھی کو پوجا انہیں بھی خدا کر دیا کہ یہ پو پھوٹ انسانوں سے ہی اذن ہوتا ہے __
مگر پھر بھی تیرگی تجسس ہنوذ رہا ،آگ کی پوجا کی کہ یہ خدا ہوگی کہ تپش جو اسکے پہلو سے اٹھتی وہ شاید یہ ہو شاید وہ یہ ہو__ !
اسی ہرن کی طرح اس آگ کو اس پتھر اس انسان کو سونگھا خود فریبی پہ اتر آئے مطمئن کرنے لگے خود کو ،تم سے تو وہ جانور بھی اچھا جو سونگھ کے جھٹک تو دیتا ہے کہ نہیں وہ یہ نہیں وہ یہاں نہیں وہ کہیں اور ہے __!
مگر اہل باطل چمٹے ہی رہے کہ انکے ایمان میں انا کا عنصر برابر موجود رہا ، کہ وہ اس پر اڑ گئے!
یہ انا جنون ہے اک رد کا جنون اک ہر شئے کو خدا بنا لینے کا جنون نوعیت وجہ بیان کردی میں نے کہ کیوں؟
قرآن سے آواز آتی ہے ، سورہ بقرہ! جہنم کی آگ سے بچا لیا تو گیا انہوں نے اپنے جنون کی حسد کرتے ہوئے کفر کے بدلے فروخت کردیا! کفر بھی اک جنون رد رب بھی اک جنون دونوں کو رقابت کی نگہ سے دیکھتے ہوئے جس نے فطرت سلیمی کے بدلے فروخت کردیا تو وہی تو ڈگر ،
بابا کے پاس اک بھینس ہوا کرتی نیلی راوی نسل کی بہت فربہ تھی سیروں دودھ دیا کرتی تھی جوکہ گابن تھی اک رات اسنے بچہ جنا، میں سارا مرحلہ حیرت سے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھ رہا تھا ، میں نے دیکھا اسکی پشت سے اک سفید جھلی میں لپٹا بھینس کی ماند بچہ دھڑم سے نیچے آرہا ، بھینس اسکی طرف مڑی اور تکنے لگی ، بچے کی آنکھیں بند تھیں ، چالیس منٹ کے بعد میں نے دیکھا کہ بچہ اپنے پیروں پہ ڈگماتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ہے اور پہلا قدم جو اسنے بڑھایا وہ ماں کے تھنوں کی جانب تھا ، پھر تھنوں سے لپٹ کے سر اوپر نیچے مار کر چوسنے لگا ، میں سوچ رہا تھا کس نے اسے بتایا ان تھنوں میں کیا ہے؟
اسے پینا کیسے ہے منہ تھن لے کر مارے گا تو دودھ نکلے گا جو اسکے لیے دوام ِ زندگی ہے جبکہ اسکو ابھی آئے چند لمحے گزرے؟
یہ علم کہاں سے آتا ہے اس میں اسکی فطرت میں؟
جواب فطرت سلیمہ جو سیدھا تھنوں کو رخ کرتی ہے سو عین انسان سیدھا خدا کو رخ یہ اسی موافق ہے کہ جب بچہ بڑا ہوتا ہے گھاس کو منہ مارتا ہے اسکا مالک اس کی فطرت کو گھاس پہ منتقل کردیتا ہے جبکہ وہ دودھ خور تھا مالک نے مزاج من تحریف کی جبکہ ازل سے دودھ کا شیدائ تھا ،اسکو تھنوں کی خبر اسکی فطرت نے پہلے سے ہی دے دی کہ وہ دودھ اسی کے لیے بنا ہے کہاں بنا ہے کہاں رکھا ہے اسنے بنا پوچھے آنکھیں بند کرکے سب ڈھونڈ لیا
سو عین انسان!! اسکو خدا کی خبر ہے و ازل سے خدا کا شیدائ تھا اسکو خدا کی خبر اسکی فطرت نے اسے پہلے سے ہی دے رکھی تھی کہ وہ خدا اسی ہی کے لیے ہے کہاں رکھا ہے؟ اسنے بنا پوچھے آنکھیں بند کرکے جان لیا۔۔ اوپر لم یزل ہے جو مندر سے اوپر تخیل کے نہاں خانوں میں موجود ۔۔یہ اسکی فطرت تسلیم کرتی ہے گر وہ فطرت پہ قائم رہے ۔۔
جب انسانی بچہ پیدا ہوتا ہے گائنی والے سب سے پہلے بچہ کے منہ میں انگلی دیتے ہیں وہ جوں ہی منہ میں آتی ہے وہ اسے چوسنے لگتا ہے گر وہ چوسنے لگے تو کہتے ہیں یہ نارمل ہے کوئ نفسیاتی عارضہ نہیں صحت مند دماغ ہے فطرت سلیمہ پہ!
سب کچھ اس میں ودعیت ہے ، سورہ بقرہ سے آواز آتی ! کیا برا حکم دیتا ہے تم کو تمہارا ایماں اگر تم ایمان رکھتے ہو،،،،اک ایمان جو فطرت میں ہے جو اسکوحکم دیتا ہے بچھڑے کو تھن تک ،چوزے کو آدمی تک، ہرن کو ناف کی خوشبو تک، گگن اگروال کو بت سے خدا کے تخیل تک اسکے کردار تک ۔۔ایمان فطرت سلیمی میں ازل سے مقید تھا ،غیر ارادی طور پر ، یہ فطرت ِ ایمانی ہے۔۔
یہ ایمان پھٹکڑی کے جیسا ہے ،، پھٹکڑی دیکھی ہے کبھی؟ ہلکی سی سفید سی نمکیں سی!
روہی اک صحرا ہے جوکہ بہاولپور کے قرب میں پڑتا ہے وہاں پانی نہیں ہے ،میں جب پہلی مرتبہ روہی گیا تو میں نے وہاں بڑے بڑے تالاب نما گدلے پاٹ دیکھے جن میں بارش کا پانی ٹھہرا ہوا ۔۔وہ لوگ پانی ایسے ہی جمع کرتے ہیں میں نے وہاں اک روہیلے سے پوچھا تھا یہ پانی تو گدلا ہے بھئ اسے پیتے کیسے ہو آخر ؟
کہنے لگا سائیں ، اس میں گائے چلتی ہے تو مٹی کاغبار اٹھ آتا ہے پانی میں سب خراب دھندلا گدلا ہو جاتا ہے مٹی اوپر آجاتی، پانی فطری نہیں تھا کچھ سجھائ نہیں پڑتا سائیں ،
سائیں یہ پانی جب رب نے اتارا تھا تو شفاف شیششہ تھا ۔میں نے دیکھا تھا میں گھر سےکنگھی لے کر نکلتا تھا اور کنارے بیٹھ کر اپنے بال درست کرتا تھا شیوو بھی کرلیتا تھا پانی بھی پی لیتا تھا سائیں ،۔۔سائیں یہ پانی تو معصوم تھا سائیں صاف کسی بھی گرد سے پاک فطرت سلیمہ ، ھم اسے گدلا کردیتے ہیں نا سائیں ورنہ پانی خود گدلا کبھی نہیں ہوتا ،
میں نے کہااچھا اس پانی کو پیتے کیسے ہو؟ کہنے لگا سائیں پھٹکڑی ڈال کر ، میں نے کہا پھٹکڑی؟ کہنے لگا سائیں جب “دِلے” یہ گدلا پانی بھرتے ہیں نا سائیں تو دِلے میں پھٹکڑی ڈال دیتے ہیں جب وہ پیندے میں پہنچتا ہے تو یہ پھٹکڑی کی قدرت ہے کہ گرد بیٹھنے لگتی ہے “دِلے ” کی پانی شفاف نتر آتا ہےبالکل پہلے کہ جیسا اتارا گیا تھا آئینہ نما ،
میں نے کہا میاں یہ “دِلے ” کسے کہتے ہو؟ کہنے لگا گھڑے کو روہیلی زبان میں دلے یا دِلا کہتے ہیں ،۔۔
میں سوچنے لگا دلا اور دل ایک جیسے ، پانی شفاف فطرت کے موافق ہی اتارا ہوا گدلا ہوا ھمارے افکار کی وجہ سے۔۔ ورنہ وہ تو معصوم ہی تھا جس میں آسماں نظر آتا تھا ، یہ دل ہمارا بھی وہی تالاب ہی تو تھا۔۔وہی ٹوبہ ہی تو تھا شفاف جس میں خدا نظر آتا تھا فطراً!
پھر ھم نے گدلا دیا دونوں کو افکار کی بھینسں چھوڑ کر ، اب فطرت کو فطرت سے ہی اصل فطرت کی طرف لایا جا سکتا تھا ، دلے اور دل میں تزکیہ کرنے والی اس غبار کی صفائ گرد بٹھا دینے والی پھٹکڑی فطرت ایمانی ہے جو دونوں کی گرد بٹھا دیتی ، پھٹکڑی بھی قدرتی ہے پانی بھی ٰ فطرت کا استعمال کرو ، فقال ،”اپنی فطرت پہ سیدھے رخ کرکے چلتے جاؤ!”
آپ نے اگر روہی کی گائے نہیں دیکھی تو کیا دیکھا ، روہی کے واسیوں کی بودو باش گائے بانی ہے ،میں نے وہاں اک ریوڑ دیکھا سینکڑوں میں تھا، اک دائرے میں ٹوبہ کے ساتھ ہی بیٹھا تھا میں نے خادم حسین سے پوچھا بھئ یہ انکی حفاظت کون کرتا ہے؟
اسنے قہقہ مارا ، یہ قدرت ہے اپنی حفاظت خود کرتی ہے ، روہیلی گائے کبھی چوری نہیں ہوتی، میں نے کہا وہ کیوں؟ بولے یہ قریب ہی نہیں آنے دیتی کسی کو ان چھوئ ہی رہتی ہے ، کہنے لگے جب پورب سے ہوائیں آتیں ہیں برکھا کی رت میں ساون کا مون سون اترتا ہے تو روہی کی گائے دیوانی ہو جاتی ہے ، تم اک گائے لیجاؤ اور جہاں کے تم ہو وہاں باندھ آؤ، پر یاد رکھنا جب ساون آئے گا تو یہ دیوانی ہوجائے گی رسی توڑ دے گی،جدھر پورب کی جانب کو روہی ہے بھاگتی ہوئ اسی علاقہ میں آئے گی ،
یہ وہ مچھلی ہے جو فطرت کے تالاب سے باھر نہیں رہ سکی مر جائے راستے میں تو تمہاری ہوئی، پہنچ آئے تو ہماری ہوئی ، روہی کی گائے فطرت سے عاری نہیں ہو سکتی اسکی فطرت اسکو مقناطیس کی طرح کھینچتی ہوئ ہزاروں میل دور تلک اپنے روہی کی طرف لاتی ہے ، یہ قطب نما اسکی فطرت ہے فطرت ِ سلیمہ، میں لاکھ بدل دوں اسکی فطرت اسکا روہی پہ ایمان جو سم تھنگ انڑنل ہے نہیں بدل سکتا کبھی نہیں ، جسطرح وہ بھاگتی ہوئ روہی میں آتی اسکے پاس کوئ نقشہ تو نہ تھا کمپاس بھی نہیں مگر ،،
اپنی فطرت کی طرف سیدھا رخ کرکے چلتے رہو( القرآن)
میرا اک ہندو دوست تھا اسکا نام گگن اگروال تھا ممبئی کا ریہائشی تھا اسکی سافٹ ویئر کی دکان تھی۔ یہ ان دنوں کو تذکرہ ہے کہ جب میں انٹرمیڈیٹ میں ہوا کرتا تھا تب یاھو میسنجر کا دور دورا ہوا کرتا تھا اک دن میں نے گگن سے پوچھا گگن یہ ہندو دھرم کہ بارے کیا کہتے ہو؟
کہنے لگے حق بات یہ ہے کہ یہ میرے لیے مناسب تو نہیں مگر مجھے کچھ چیزوں سے اشد اختلاف ہے _میں مردے کو جلانے کا مخالف ہوں ،میں کہتا ہوں ہر چیز دوسری چیز کا بھوجن ہے سو جلانا فطرتاً غلط ،میں جلاتا ہوں مگر اسکا قائل بھی نہیں ہوں __
میں مندر جاتا ہوں مگر میرا تخیل مجھے بت سے ہٹا کر آسمانوں میں کہیں اٹھا لے جاتا ہے، میں ہڑبڑا کے ہاتھ بند آنکھ بند کرکے بت کے آگے آتا ہوں، میرا تخیل میرا ذہن مجھے پھر اوپر کو اٹھا لیجاتا ہے۔۔ میں ہر بار جب جب بھی مندر گیا مجھے اس بت سے زیادہ خلا میں کسی ایک ہماتن گوش طاقت نے خود کی طرف کھینچ لیا خود کی طرف متوجہ کرلیا ___
مجھے نہیں معلوم میرے ساتھ ایسا کیوں ہے ، پندرہ کروڑ سے مانوسیت کو سرے سے میری فطرت ہی نہیں تسلیم کر پارہی تو میں کیا کروں؟ ایسا نہیں میں زبان سے کتاب سے، قلم، بھجن سے اسکا اقرار کرتا ہوں رام کرشن ہنومان پر مہاتما سیتا دیویاں میرے عقائد کا حصہ ہے وہ صرف تب تلک میرے دماغ پر ہاوی رہتیں جب تلک کہ میں ان کا تکرار کرتا رہتا ہوں ___ جب میری دادو مری میں نے بھجن گائے ،خود اسکی اسھتیا بنائی رام گنگا میں بہائی __ انکے نام چڑھاوا چڑھایا چوتھے کے چاول کیے مگر رسم کی حد تک، میں یہ سب کرتے ہوئے مطمئن نہیں تھا __
مجھے لگتا ہے میرے جیسا ہر شخص جو ہندو ہوگا میرے جتنا ہی اک صحت آدمی، میرے جتنی ہی فراست ،میرے جتنا ہی مشرقی روایتی سماجی سائینسی استدلال کا حامل شخص ہنوذ ایسا ہی سوچتا ہوگا __ مجھے کیوں لگا جب میں گنگا میں استھیا کی ڈولچی خالی کر رہا تھا خاک پانی میں اڑ اڑ کے جارہی تھی میرا تخیل مجھے خلا میں اٹھا کر لے جارہا تھا جیسے میں اس استھیا کی راکھ کو پندرہ کروڑ نہیں کسی ایک نیوٹرل طاقت کے حوالے کر رہا ہوں ___
میں سوچتا ہوں فطرتاً خدا کو ایک ہی ہونا چاہیے ، یعنی یہ سوال عجیب ہے مہران کہ خدا ہے کیسا اور اک خدا کو ہونا کیسا چاھیے ، اس دھرتی پہ کروڑہا لوگ بستے ہیں دیکھنے کو طاقت رکھتے ہیں میں اپنی دادو کی استھیا ان سب میں کیوں نہیں بانٹ دیتا __؟؟؟ وہ بھی کروڑہا ہیں بھاگوان بھی کروڑہا __؟؟؟ پھر اسے میں لہروں کے رحم کرم پہ چھوڑ آتا ہوں کیوں __؟؟؟
میں سوچتا ہوں خدا کو اکیلا ہی ہونا چاہیے ، وہ اتنا طاقتور ہو کہ اس کہ جتنی طاقت کسی کے پاس نہ ہو ، اگر وہ خدا ہو تو اسکو کھانا بھی نہیں چاہیے پینا بھی نہیں کہ وہ اپنی محکوم چیزوں کا محتاج کیونکر ہوسکتا ہے __؟؟؟نہیں اسکو حاجت بھی نا ہوا ،اسکی کوئی بیوی بھی نہیں ہونی چاہیے ، اور اسے مرنا بھی نہیں چاہیے ، ہر چیز کا اس کے پاس اک اشارہ ہو وہ حرکت بھی نہ کرے ، وہ سوچے اور کام ہو جائے ، مدد کو فوراً کو پہنچے ، اور ولن کو مار بھگائے ، ولن اسکے ہر حال میں ہار جائے ،اسکو اک فلم بنانی چاہیے جس میں شروع سے کر آخر تک سب ریکارڈ کرکے آن کردے کہ ایسا ہوگا ایسا ہوگا ، جیسے ممبئی کے ڈائریکڑ ہوتے ہیں نا مہران ویسے ___
خدا کو ایک ڈائریکڑ ہونا چاہیے کہ وہ دنیا کی فلم کا آغاز کرے اس میں سبق ہو اس محبت ہو معاشرتی سین ہوں ، رومانس ہو ،اس میں ولن بھی ہو اس میں ولن کے خلاف اک طاقت بھی ہو ، ولن کی کمزوری بھی ہو پھر اچانک سے آئے ہوئے مددگار بھی فلم میں موجود ہوں جو کمک بطور فوراً سے سب اچھا کردیں ،پھر اس فلم کا اختتام ہونا چاہیے ہر فلم کا اختتام ضرور ہونا چاہیے ، پھر اسکے بعد اس فلم کے ہر کرداروں کو پریمر ایوارڈ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ آسکر ایواڈ تک کی کیٹآگری میں نامزد کرکے انکو انعام دیا جائے ،بدلے میں انکے کام کے انکو بڑے بڑے گھر پلاٹ جواہرات بہترین ساز و سامان ِ زندگی فراھم کیا جانا چاہیے کہ یہ انعام ہے جو انہوں نے اچھے سے نبھایا __
فلاپ اداکاروں کی بھی اس فلم سے کیٹا گری ہونی چاہیے جیسے وہ بالی وڈ میں کیٹا گرائز کیا جاتا ہے جنکو نامزد کیا جائے انکو سزا دی جائے ، انعام چھین لیے جائیں انہوں نے سکرپٹ جو لکھ کر بھیجا گیا تھا پہ پورے کیوں نہیں اترے ،پابند کردیے جائیں ،بین کر دیے جائے ، انکی جگہ اچھے لوگوں کو موقعہ دیا چاہیے ، خدا کو اک فلم ساز ہونا چاہیے جو ایسی ہی فہرست مرتب کرے ایسے فلمائے دکھائے پھر اختتام کردے __ ! ایسا ہونا چاہیے یہ یہ فطرت کو ہی متقاضی ہے ضرود ایسا کرنا چاہیے ، اور اک خدا کو ایسا ضرور کرنا چاہیے ، گگن اگروال مسلسل ٹائپ کرکے انبکس میں دھکیلتے جاتے میں نے انہیں بز مار کر روکنا بھی چاہتا تھا مگر وہ مسلسل لکھتے جاتے تھے ۔۔
میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں وہ ہندو تھا اور رہے گا ، خدا کی قسم اس وقت ، فطرت سلیمی کے تحت پیدا ہوا ہوا گگن اگرول سامنے تھا ناکہ اک برھمن ، وہ اپنی فطری سوچ بتارہا تھا ، اس بات پہ وہ مہر ثبت کرتا چلا جارہا تھا کہ، ہر بچہ فطرت سلیمی کے تحت پیدا ہوتا ہے اسکے ماں باپ ہی اسے یہودی نصرانی (ہندو) کر دیتے ہیں ___!
جو خاکہ وہ خدا کا بیان کر رہا وہ اسکی فطرت سلیمی ہی تھی جو تخیل اسے خدا کی طرف خودبخود بت سے اٹھا کر کھینچ لاتا تھا، خلاوں میں وہ اندر اندر ،یوم الست پہ دی گئ گواہی کے مترادف و موافق ہی تھا کہ الست بربکم ، قالو بلی ___!
وہ اقرار کر رہا تھا فطرت کی اسی پاک بنیادوں پر کہ جس فطرت پہ اسے یوم الست ست سے دھکیل کر پیدا کیا گیا تھا کہ خدا کو یوں ہونا چاہیے اسے یوں کرنا چاہیے آغاز کا اختتام ہونا چاہیے ___!
یہ اسکے حافظے کے نہاں خانوں میں اسکی فطرت میں صدیوں سے مقید تھا کہ جسکا وہ برملا خواہش کی صورت اظہار کر تا ہی جارہا تھا خواہ وہ از خود اک ھندو تھا ___! جو اسکے ماں باپ ودعیت ہی تھی کہ از خود اسکی معصوم فطرت پہ مسلمہ خواہش اسکی گواہی دے رہی تھی ، کیا نا تھا جو وہ کہہ رہا تھا ویسا __؟؟؟
گگن سے میں متفق ہوں کہ میں بھی مسلم بائی چانس نہیں ہوں اگر میں اسلام سے جڑا ہوا ہوں انہی بنیادوں پر کہ میری فطرت مجھے خدا کے ہونے کے عندیہ دیتی ہے ۔۔
میری فطرت مجھے اک دن اس دنیا سے جدا ہونے کا عندیہ دیتی ہے اور دیتی رہے گی ۔۔کسی واحد طاقت کا تخیل مجھے اپنی اوڑ مقناطیس کی طرح کھینچتا ہے ۔۔
یہ عبث بھی نہیں میرے بس میں بھی نہیں یہ اک ڈوری ہے جس سے میری فطرت سلیمہ بندھی ہوئی ہے ۔۔چاہ کر بھی اسے توڑنے سے قاصر ہوں، لاکھ بار توڑوں یہ ڈور، اس پہ کسی اور سوچ کا غلبہ کردوں، مگر وہ فطرت کی پتنگ پھر کسی ہاتھ لگ کر پھر اک خیال اک وجود اک مقناطیست کے دریں جو میری جینز میں ہے میری فطرتِ سلیم میں اس کٹی پتنگ کو کنی دے کر ہواؤں میں پھر سے بلند کر دیتا ہے ، میں ملحد کٹی پتنگ تھا میں مہران جسکی فطرت لاکھ چاہ کر بھی میری فطرت سلیمی اس پہ پتنگ کو ہواؤں کی دوش پہ گگن اگروال کے جیسے کسی ایک خدا اللہ و جلہ شان ہو کہ جیسا اسکو ہونا چاہیے کہ جیسا وہ ہے اسی کی طرف لے اڑی جاتی ہے میں چاہ کر بھی منکر ہو نہیں سکتا ، گر جو اپنی فطرت اپنے نفس اپنے تخیل سے لاکھ بغاوت کرلوں ، یہ ویسے ہے کہ جیسے چاندنی میں سمندر پہ جوبن آیا ہوا ہوتا ہے اسکی اک کشش کے دوش پہ لہر آتی ہے اور کنارے کو چھو لیتی ہے پھر عوامل اسے واپس دھکیلتے ہیں اور واپس چھوڑ آتے ہیں مگر وہ چاندنی(فطرت سلیمی) اسکو جوبن پہ لائے ہی رکھتی ہے جلائے ہی رکھتی ہلائے ہی رکھتی ہے کنارے پہ بلائے ہی رکھتی ہے
پھر یہ میری فطرت سلیمی مجھے ایک مسلم کسی ایسے ہی سکرپٹ کی تلاش کی طرف اڑتی ہے ،کہ میں دنیا کی آنکھ اٹھاتا ہوں میں دیکھتا ہوں دنیا میں مذاہب بھرمار ہے ____ مگر ٹھہریے میں یہاں اک غلطی کر رہا ہوں ____ جنہیں میں مذاہب کہتا ہوں وہ صرف فارمولے ہیں سب۔۔
قدیم بدھ مت ،میں دیکھتا ہوں اس میں کہیں خدائی کا وجود نہیں، بدھا اک از خود فطرت سلیمی کے تحت پیدا ہوا بیٹھا انسان ہی تھا میری طرح ہوبہو اسکے باپ نے اسے دنیا سے بچانے کے لیے گھر میں رکھا دنیا سے الگ کہ جیسا وہ پیدا ہوا تھا فطرت سلیمہ کے تحت، جب وہ جوان ہوا تو اک کمرے اندر ہی جہاں کہ وہ رہتا اسکی شادی کردی ، اسکی بیوی اسے اپنی متوجہ کرتی مگر وہ گنگ خاموش کہ فطرت معصوم جو رہی کہ اسنے دنیا کے باپ کے ماں کے کسی عقیدے کی بھنک تک نہ ہونے پائی، سہاگ کے راز تلک نابلد تھا کہ جیسا کہ اک بچہ ہوتا ہی ہے!
اک دن گھر سے باھر نکل ٰآیا سو جسطرف فطرت ِ قدرت تھی سو جنگل میں جا بیٹھا بوھڑ کے درخت کے نیچے آلتی پالتی مارے آنکھیں بند کیے ،وہ اپنی ماِں سے سوال کیا کرتا تھا ایسے سوال جسکا جواب اسکی ماں نہیں دے سکتی ___ اک دن بیٹھا تھا درخت کے نیچے بیٹھا ہی تھا ، کہ اسنے چیخ ماری ، مل گیا مجھے جواب مل گیا ___ ! حیرت سے ساکت ہوگیا ، بدھا کا گیان عین فطرت کے موافق تھا لوگ آیا کرتے وہ انکے جواب دیا کرتا پھر عالم استغراق میں چل دیتا لوگوں نے اسےبخدا خدا ہی سمجھا ، جبکہ اسکے کسی گیان میں خدائی کا دعویٰ نہیں ملتا نہ اسکے مبلغین نے یہ دعویٰ محفوظ کیا ، بدھ مت سے کئ شاخیں نکلیں جین مت ،ھندو مت جو اسی کی پیرو تھیں جن میں صرف انسان ہی خدا تھا ، رام انسان تھا ، یونانی فلسفہ کے تمام خدا انسان تھے ، سو میں نے اک انسان کو خدا ماننے سے انکار کرتے ہوئے سب کا رد کیا ___
فرعون شداد نمردو سب انسان ، چگنیز خان اور سکندر ِ اعظم کا کاٹنگری مذہب کہ جس میں انسان اور آگ کی بوچا تھی ، فطرت سلیمی کے موافق نہ تھی نہ گگن اگروال کہ ،نہ میرے ،نہ میرے جیسے کروڑوں کے ، یہ سب فارمولے تھے جنہیں مذہب کہہ دیا گیا ، فطرت کے متقاضی صرف تین مزاہب اتارے گئے ، عیسایت یہودیت، اسلام۔۔ جن میں ایک ہونا ،لاولد ہونا ،آخرت( فلم کا اینڈ)، فرشتے ( مددگار پیمبر)، کتاب ( سکرپٹ) موجود تھی ، پھر میں انہیں تین مذاہب کہتے ہوئے غلطی کرتا ہوں سب ایک ہی ضابطہ حیات تھے دین ابراھیم ، کہ میں دین ابراھیم پہ ہوں ،موسیٰ مرگئے سو قوم موسٰی پہ عیسی ٰ آئے کہ عیسیٰ گئے قوم عیسیٰ پہ محمد آخر الزماں اترے ___!
عین فطرت کے موافق وہی استدلال جو گگن اگروال کے دل میں، مہران کے دل میں، میرے جیسے کئ مہرانوں کے دل میں فطرت میں مقید تھے۔۔ وہ ان تخیل ۔ان فطرتی عوامل پہ پورے اترے ، سو میِں نے خوش قسمتی سے لبیک کہا ، میں نے فطرت کا فیصلہ مان لیا ، میں نے دین کو دل سے مانا ہے، دل سے جانا ہے کہ جیسا خدا کو ہونا چاہیے کہ وہ ویسا ہی دین ابرھیم میں ہے کہ جسکو میری ، گگن اگروال کی فطرت ہوبہو تسلیم کرتی ہے قبل از وقت ہی کہ جو میں اور گگن ماں کے پیٹ سے لائے تھے ، سو آنکھ کھولی تو سامنے وہی کچھ تھا ، جو میں نے چاہا میں نے لامحالہ سوچا کہ جو ہونا چاہیے جو چاہنا چاہیے!
اپنی فطرت پہ سیدھارخ کیے چلتے جاؤ

طلاق کا حق مرد کے پاس ہی کیوں ہے؟

ملا جی–ایک سوال پوچھنا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ آپ کوئی فتوی ہی نہ لگا دیں۔
پوچھو پوچھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! سوال پوچھنے پر کوئی فتوی نہیں۔
یہ بتائیں کہ اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، عورت کو کیوں نہیں دیتا۔۔۔۔؟ کیا عورت انسان نہیں؟ کیا اس کے حقوق نہیں؟ یہ کیا بات ہے کہ مرد تو جب جی چاہے عورت کو دوحرف کہہ کر فارغ کردے اور عورت ساری زندگی اس کے ظلم کی چکی میں پسنے کے باوجود بھی اپنی جان بخشی نہ کراسکے۔۔۔؟ کیا یہ ظلم نہیں؟
تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں، مگر پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔۔۔!!
جی ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ بتاؤ کہ تم ایک بس میں کہیں جانے کے لئے سوار ہوئے، بس والے کو کرایہ دیا، ٹکٹ لی، سیٹ پر بیٹھے، سفر شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بس والا تمہیں منزل پر پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں، کسی جنگل، کسی ویرانے میں اتارنے کا حق رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟
بالکل نہیں۔
ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب یہ بتاؤ کہ اگر تم راستے میں کہیں اترنا چاہو تو تمہیں اس کا حق حاصل ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟
بالکل ہے، میں جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں۔وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وجہ یہ ملا جی کہ وہ مجھ سے کرایہ لے چکا ہے، لہذا منزل سے پہلے کہیں نہیں اتار سکتا، اور مین جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں، وہ مجھے نہیں روک سکتا، اس لئے کہ اس کا کام کرائے کے ساتھ تھا جو وہ مجھ سے لے چکا ہے۔
بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب ایک اور بات بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!تم ایک مزدور کو لے کر آئے ایک دن کے کام کے لئے، اس نے کام شروع کیا، اینٹیں بھگوئیں، سیمنٹ بنایا، دیوار شروع کی، اور آٹھ دس اینٹیں لگا کر کام چھوڑ کر گھر کو چل دیا، تمہارا رد عمل کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔؟
میں اسے پکڑ لوں گا، نہیں جانے دوں گا، کام پورا کرے گا تو اسے چھٹی ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اور اگر تم اسے کام کے درمیان میں فارغ کرنا چاہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
مجھے اس کی اجرت دینی ہوگی، اجرت دینے کے بعد میں اسے کسی بھی وقت فارغ کرسکتا ہوں۔
اگر وہ کہے کہ میں اجرت لینے کے باوجود نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ ایسا نہیں کرسکتا، میں اسے لات مار کر نکال دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب اپنے سوال کا جواب سنو۔۔۔۔۔۔۔۔!!دنیا میں جس قدر بھی معاملات ہوتے ہیں، ان میں ایک فریق رقم خرچ کرنے والا ہوتا ہے تو دوسرا اس پیسے کے بدلے میں خدمت کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ پیسہ خرچ کرنے والے کا اختیار دوسرے سے زیادہ ہوتا ہے، کوئی معاملہ طے ہونے کے وقت تو دونوں فریقوں کی رضا ضروری ہے، لیکن معاملہ طے ہوجانے کے بعد اس کے انجام تک پہنچنے سے پہلے، رقم خرچ کرنے والا فرد تو واجبات کی ادائیگی کے بعد خدمت کرنے والے کو فارغ کرسکتا ہے، مگر خدمت فراہم کرنے والا کام فریق درمیان میں چھوڑ کر خرچ کرنے والے کو فارغ نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔!!
اگر رقم کے بدلے میں خدمت فراہم کرنے والے فریق کو کسی بھی وقت پیسہ خرچ کرنے والے کو فارغ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو مزدور دوپہر کو ہی کام چھوڑ کر گھر چلے جائیں، ملازم عین ڈیوٹی کے درمیان غائب ہوجائیں، مالک مکان مہینے کے درمیان ہی کرائے دار کو گھر سے نکال دیں، درزی آپ کا سوٹ آدھا سلا اور آدھا کٹا ہوا آپ کے حوالے کرکے باقی کام کرنے سے انکار کردے، نائی آپ کے آدھے سر کی ٹنڈ کرکے آپ کو دوکان سے باہر نکال دے، دنیا کا سب نظام تلپٹ ہوجائے۔ کچھ سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
ہاں ہاں ملا جی سمجھ رہا ہوں، مگر میں تو وہ طلاق والی بات۔۔۔۔۔۔۔!!
وہی سمجھا رہا ہوں۔اب سن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ایک مرد اور ایک عورت میں جب نکاح کا پاکیزہ، محبت، پیار اور اعتماد والا رشتہ ہوتا ہے تو یہ کوئی کاروباری یا جزوقتی معاملہ نہیں ہوتا، یہ دلوں کا سودا، اور ساری زندگی کا سودا ہے، مگر اس میں بھی اسلام ہمیں کچھ اصول اور ضوابط دیتا ہے۔
اس معاملے اور معاہدے میں ایک فریق مرد ہے، اسلام اس کے اوپر اس کی بیوی کا سارا خرچ، کھانا پینا، رہن سہن، علاج معالجہ، کپڑا زیور، لین دین، اور زندگی کی ہر ضرورت کا بوجھ ڈالتا ہے،
اب اس عورت کی ساری زندگی کی ہر ذمہ داری اس مرد پر ہے، یہی اس کی حفاظت اور عزت کا ذمہ دار ہے، یہی اس کی ہر ضرورت کا مسئول ہے، یہاں تک کہ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی اسی مرد کو کرنا ہے، اور مرد کے مرنے کی صورت میں اس مرد کی بہت سی وراثت بھی اسی عورت کو ملنی ہے۔
ان دونوں میاں بیوی سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ یوں تو دونوں ہی کے ہیں، مگر اسلام ان بچوں کی مکمل مالی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مرد پر ڈالتا ہے،
ان بچوں کی رہائش، کھانا پینا، کپڑے، علاج معالجہ، تعلیم اور کھیل کے تمام مالی اخراجات بھی مرد اور صرف مرد کے ذمہ ہیں۔ اسلام عورت کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھتا ہے۔
ان سب ذمہ داریوں سے پہلے، عقد نکاح کے وقت ہی مرد نے مہر کے عنوان سے ایک بھاری رقم بھی عورت کو ادا کرنی ہے۔
ان سب کے علاوہ اسلام مرد کو اس کی بیوی کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، وہ اسے “من قتل دون عرضه فهو شهيد” کی خوش خبری سنا کر اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کے لئے جان تک دے دینے کی ترغیب دیتا ہے، اور “حتي اللقمة ترفعها الي في امرأتك” کہہ کر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے پر بھی ثواب کی نوید سناتا ہے،
وہ اسے “اتقوا الله في النساء” کہہ کر بیوی کو تنگ کرنے، ستانے، بلا وجہ مارنے، دھمکانے اور پریشان کرنے پر اللہ کی ناراضگی اور عذاب کی وعید سناتا ہے تو “خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي” کہہ کر گھر والوں کو محبت، پیار، سکون دینے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور انہیں جائز حد میں رہ کر خوش رکھنے پر اللہ کی رضا کی نوید سناتا اور ایسے لوگوں کو بہترین انسان قرار دیتا ہے۔
مرد پر اس قدر ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد وہ بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت، اطاعت، اس کے ساتھ وفا داری، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔
مرد اور عورت کے اس معاہدے میں عورت کی ساری زندگی کی ہر مالی ذمہ داری مرد پر ہے، تو تم خود بتاؤ کہ طلاق کا حق ان دونوں میں سے کس کے پاس ہونا چاہئے؟
ویسے ہونا تو مرد کے پاس ہی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے اگر عورت کو بھی یہ حق دے دیا جائے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟
حرج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
بھئی فرض کرو تم نے ایک خوبصورت عورت کا رشتہ پسند کیا، رشتہ بھیجا، بات چلی، رشتہ طے ہوگیا، انہوں نے ایک لاکھ مہر کا مطالبہ کیا، تم نے منظور کیا، نکاح ہوگیا، تم نے جونہی مہر اس کے حوالے کیا، اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔”میں تمہیں طلاق دیتی ہوں، طلاق طلاق۔۔”۔۔۔ اور شام کو کسی اور سے شادی کرلی، اس سے مہر وصول کرکے تیسرے، پھر چوتھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تمہارے دل پر کیا بیتے گی مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اوہ ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! آپ نے تو میرے ہوش اڑا دئیے، یہ تو بہت خوفناک بات ہے۔
صرف یہی نہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اس سے آگے چلو، اب جو مرد کھلے دل سے بیوی پر اپنا مال جان دل سب کچھ لٹاتا ہے، اس کے نخرے اٹھاتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنی سمجھتا ہے۔۔۔۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ یہ کسی بھی وقت اسے لات مار کر کسی دوسرے آشیانے کو روانہ ہوسکتی ہے، تو وہ اسے گندم کا ایک دانہ بھی دیتے وقت سو مرتبہ سوچے گا، اور صرف اس مرد کی نہیں بلکہ اس عورت کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
سمجھ گیا سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔!! انتہائی خوفناک۔۔۔۔۔!! بہت ہی خطرناک سچوئشن۔۔۔۔!!مگر ایک بات ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! کہ کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے، اور اب تو بہت سے گھرانوں میں ہورہا ہے، کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ نہ تو انصاف کرتا ہے، اور نہ اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
آہ کیا دل دکھانے والا سوال پوچھ لیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔!
کیوں ملا جی۔۔۔۔۔؟؟ اس میں دل دکھانے والی کیا بات ہے۔۔؟
دیکھو مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!ان تمام مسائل کا حل اور مکمل حل اسلامی نطام ہے، وہی اسلامی نظام جس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے تم جیسے لوگ ساڑھے چوبیس گھنٹے پھرتیاں دکھاتے رہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اگر مکمل طور پر اسلامی نظام قائم ہو ہر طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی عزت، اہمیت اور بالادستی ہو تو ایک طرف تو سب لوگوں میں اللہ کا خوف، تقوی، نیکی کے شوق اور برائی سے دوری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر سطح پر ظلم، زیادتی اور گناہ کو روکنے کے لئے وہ کردار ادا کرتی ہیں جو پولیس، فوج اور عدالت بھی نہیں کرسکتی۔۔۔
مگر افسوس کہ تم لوگ پوری توانائی اسی خوف خدا اور دینداری کو ملیامیٹ کرنے پر صرف کرتے ہو، اپنے آشیانے کو خود آگ لگاتے ہو اور پھر اسے بجھانے کے لئے دوڑے دوڑے ہمارے پاس آتے ہو، اپنے بچوں کو اللہ، رسول، قرآن، دین اسلام کا سبق دینے کی بجائے فلموں اور ڈراموں کا سبق دیتے ہو اور جب وہ اس سبق پر عمل کرتے ہوئے تمہیں جوتے لگاتے ہیں تو روتے روتے ہمارے پاس آکر تعویذوں کی درخواست کرتے ہو۔۔۔
سن میرے مسٹر بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اگر مکمل طور پر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو اول تو ایسے واقعات پیش آئیں گے نہیں، اگر اکا دکا ایسا ہو بھی جائے تو بیوی فورا اسلامی عدالت میں جاکر قاضی کو شوہر کی زیادتی کی شکایت کرے گی اور قاضی سالوں تک اس مقدمے کو لٹکانے یا وکیلوں کے ہاتھوں اس کی کھال اتروانے کے بجائے دونوں کا مؤقف سن کر فوری طور پر عورت کو اس کے شوہر سے اس کا حق دلوائے گا،
اگر شوہر کسی صورت اس کا حق نہیں دیتا، یا دینے پر قادر ہی نہیں ہے، تو اس سے عورت کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر وہ طلاق بھی نہیں دیتا، تو عدالت اسے جیل میں بند کردے گی، تھانے جائے گا، پولیس والوں کے چھتر کھائے گا، تنہائی اور بے بسی کا مزہ چکھے گا تو خود ہی دوسرے کی بے بسی کا احساس پیدا ہوگا، ورنہ جب تک اس کی بیوی عذاب میں رہے گی، وہ بھی اسی دائمی عذاب میں مبتلا رہے گا۔